امرتبۂ علمی
علمی حیثیت سے بھی حضرت غوث العالم کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ آپ اپنے دور کے جیدعالم اور پائے کے محقق تھے۔ معقولات ہو یا منقولات، تفسیر ہو یا حدیث، فقہ ہو یا کلام، فلسفہ ہو یا منطق، ادب ہو یا تاریخ جملہ علوم و فنون میں آپ کو پورا عبور حاصل تھا۔ اور اپنے دور کے اکابر علماء کی صف اول میں شمار ہوتے تھے۔ عرب و عجم میں آپ کی تبحر علمی اور خداداد قابلیت کی ایسی شہرت ہوئی کہ ممتاز علماء اور نامور فضلاء بغرض استفادہ و شاگردی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔آگے چل کر آپ کے روحانی مراتب د درجات کی بلندی کے ساتھ ساتھ آپ کا یہ تبحرعلمی بھی بڑھتاگیا۔ آپ نے اپنی طویل حیات مبارکہ میں دنیائے اسلام کے گوشے گوشے کا سفر کیا اور بڑے بڑے جید علماء و مشائخ سے سابقہ پڑا؛ لیکن ہر ایک کو آپ کے تبحر علمی کا لوہا ماننا پڑا، اور عرب وعجم ہر جگہ اورہر خاص وعام نے آپ کی قابلیت کا اعتراف کیا، آپ کے مریدین وخلفاء میں بہت بڑی تعداد علماء وفضلاء کی تھی۔ حضرت شیخ الاسلام گجراتی، حضرت شیخ الاسلام رومی، حضرت شیخ کبیر، حضرت شیخ نظام یمنی، حضرت قاضی شہاب الدین دولت آبادی، حضرت مولانا خیرالدین انصاری، حضرت مولاناقاضی حجت، حضرت مولانا اعلام الدین جائسی، حضرت شیخ سلیمان محدث حضرت مولانا رفیع الدین اودھی، حضرت شیخ ابو الوفاء خوارزمی جیسے صاحب علم و فن اور مایۂ نازعلماء کا آپ کے تبحر علمی سے متأثر ہونا اور آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہونا اورعلمی مسائل میں آپ سے استفادہ کرنا اور راہِ سلوک میں آپ سے رہنمائی حاصل کرنا اور آپ کی غلامی اختیار کرنا آپ کی غیرمعمولی علمی قابلیت اور روحانی بصیرت کی روشن دلیل ہے۔
بعض علماء نے آپ کو آٹھویں صدی ہجری کا مجدد قرار دیا ہے۔ رتبۂ مجددیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالم جس کو الله تعالیٰ اس مرتبۂ بلند پر فائز فرمائے ایک صدی کے آخر اور دوسری صدی کے شروع میں علمی شہرت رکھتا ہو اور اس کے علمی اور دینی فیض سے اس صدی کے لوگ بھی اور آنے والی صدی کے لوگ اس کی حیات ظاہر میں بھی فیضیاب ہوں اور اس کی وفات کے بعد بھی اس کی تعلیمات سے مستفید ہوں۔ حضرت غوث العالم کے علمی اور روحانی فضیلت کی ۷۰۰ھ کے آخر اور ۸۰۰ ھ کے ابتدامیں دنیا کے گوشے گوشے میں دھوم مچی ہوئی تھی، اور ہر ملک میں لوگوں نے بہت بڑی تعدادمیں فیض حاصل کیا۔ اور آپ کے علمی دھاک کاسکّہ پوری دنیا پر بیٹھ گیا اورجس قدر فائدہ آٹھویں صدی ہجری کے مسلمانوں کو آپ کی ذات گرامی سے پہونچا وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔
محدثین نے آٹھویں صدی ہجری کے مجد دین میں حافظ زین الدین عراقی، علامہ شمس الدین جزری اور علامہ سراج الدین بلقینی کو شمار کیا ہے۔ لیکن حضرت غوث العالم کوعلمی اور روحانی فضیلت ان حضرات سے زیادہ حاصل تھی، جن کاشمارآٹھویں صدی ہجری کے مجددین میں کیاگیاہے۔
آپ وعظ وتقریر سے حتی الامکان پر ہیز کرتے تھے؛ لیکن لوگوں کے ضد و اصرار پرچند تقریریں بھی فرمائیں جن کا ذکرگذشتہ صفحات میں ہو چکا ہے۔ ان تقریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ فن خطابت میں بھی بے مثال تھے۔ اوراس فن میں بھی آپ کوعبورحاصل تھا۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972